اسلام آباد – سپریم کورٹ آف پاکستان نے بیوہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک بڑا اور تاریخ ساز فیصلہ جاری کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے پانچ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں واضح کیا ہے کہ بیوہ خواتین بھی ملک کے دیگر شہریوں کی طرح روزگار، وقار، برابری اور خودمختاری کا مکمل حق رکھتی ہیں، اور محض دوسری شادی کی بنیاد پر انہیں نوکری سے برخاست نہیں کیا جا سکتا۔
یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی عورت کو شوہر کی وفات کے بعد دی گئی سرکاری ملازمت، اس کی دوسری شادی کی وجہ سے ختم نہیں کی جا سکتی۔ عدالت نے اس اقدام کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے “صریحاً صنفی امتیاز” کہا۔
تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا کہ بیوہ عورت کی شناخت اس کے شوہر سے منسلک نہیں ہونی چاہیے۔ مالی خودمختاری عورت کے آئینی حقوق کا لازمی جزو ہے، اور اس پر قدغن لگانا نہ صرف آئین بلکہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بیوگی کو عورت کی محرومی یا کم حیثیتی کی علامت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا، اور بیوہ عورت بھی عزت اور احترام کی اتنی ہی حق دار ہے جتنا کوئی اور شہری۔
فیصلے میں “زاہدہ پروین کیس” کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ شادی شدہ بیٹیوں کے خلاف اقدامات کو غیرآئینی قرار دیا گیا تھا، اور موجودہ کیس میں بھی یہی اصول لاگو ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے چیف کمشنر اور ریجنل ٹیکس آفیسر بہاولپور کی اپیل کو خارج کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا اور کہا کہ اس میں مداخلت کی کوئی وجہ نظر نہیں آئی۔