نئی دہلی – پہلگام فالس فلیگ واقعے کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف شدید نوعیت کے یکطرفہ اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ بھارتی حکومت نے نہ صرف پاکستان کے سرکاری “ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر پابندی عائد کی ہے بلکہ پاکستان کے سفارتی عملے کو بھی ناپسندیدہ قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے سلامتی (CCS) کے اجلاس میں پاکستان کے خلاف اقدامات کا ایک جامع پلان منظور کیا گیا۔ ان اقدامات میں سفارتی تعلقات محدود کرنا، ویزا سہولتیں معطل کرنا، دفاعی مشیروں کی بے دخلی، اور اٹاری بارڈر کی بندش شامل ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے سیکریٹری وکرم مِسری نے پریس کانفرنس میں تصدیق کی کہ یکم مئی تک دونوں ممالک کے سفارتی مشن کا عملہ 55 سے کم کر کے 30 کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے دفاعی، بحری اور فضائی مشیروں کو ایک ہفتے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم بھی جاری کر دیا گیا ہے، جبکہ بھارتی دفاعی مشیروں کو بھی اسلام آباد سے واپس بلایا جا رہا ہے۔
بھارت نے سارک ویزا استثنیٰ اسکیم بھی فوری طور پر معطل کر دی ہے اور تمام جاری کردہ پاکستانی ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ اٹاری بارڈر، جو دونوں ممالک کے درمیان واحد زمینی راستہ ہے، کو بند کر دیا گیا ہے اور بھارت میں موجود پاکستانیوں کو یکم مئی تک ملک چھوڑنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
سب سے بڑا اور تشویشناک قدم بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی ہے، جو 1960 میں پاکستان، بھارت اور ورلڈ بینک کے درمیان طے پایا تھا۔ ماہرین کے مطابق اس معاہدے کی خلاف ورزی نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی صریح پامالی ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں آبی بحران کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت جان بوجھ کر ایسے اشتعال انگیز اقدامات کر رہی ہے تاکہ بھارت کے اندرونی سیاسی دباؤ اور معاشی بدحالی سے عوام کی توجہ ہٹائی جا سکے۔ فالس فلیگ آپریشنز اور پاکستان مخالف بیانیے کے ذریعے بھارتی حکومت سفارتی ماحول کو مزید خراب کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔