جولائی 1972 کو ہونے والا شملہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک ایسا تاریخی معاہدہ ہے جس نے 1971ء کی جنگ کے بعد جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنے کی بنیاد رکھی۔ اس معاہدے پر پاکستان کے اُس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو اور بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے دستخط کیے۔
*پس منظر:*
یہ معاہدہ 1971ء کی جنگ کے بعد ہوا، جس میں پاکستان کو مشرقی حصے کی علیحدگی اور فوجی و سیاسی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ تقریباً 93 ہزار پاکستانی فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے تھے، جس کے بعد اس معاہدے کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی۔
*معاہدے کے مقاصد:*
1. جنگ کے بعد خطے میں پائیدار امن قائم کرنا
2. دوطرفہ تعلقات کی بحالی
3. تنازعات کو پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنا، بشمول مسئلہ کشمیر
4. ایک دوسرے کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام
5. قابض افواج کا انخلاء
6. جنگی قیدیوں کی واپسی اور دیگر انسانی اقدامات
*اہم نکات:*
– جنگ بندی لائن کو “لائن آف کنٹرول” کا نام دیا گیا اور اس میں کسی بھی قسم کی یکطرفہ تبدیلی سے گریز پر اتفاق ہوا۔
– دونوں فریقین نے تمام مسائل کو دوطرفہ مذاکرات سے حل کرنے پر زور دیا اور تیسرے فریق کی مداخلت کو مسترد کیا۔
– زور زبردستی، دھمکی یا یکطرفہ اقدام سے اجتناب کی یقین دہانی کرائی گئی۔
*اثر اور تنقید:*
معاہدے کے نتیجے میں قیدیوں کی واپسی ممکن ہوئی اور بھارت نے کچھ علاقوں سے افواج واپس بلائیں۔ تاہم، پاکستان میں بعض حلقے اس معاہدے کو کشمیر پر کمزور مؤقف قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں کوئی واضح حل یا بین الاقوامی ثالثی کا کردار شامل نہیں کیا گیا۔
*کیا معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کیا جا سکتا ہے؟*
بین الاقوامی قانون کے مطابق (Vienna Convention 1969)، کوئی بھی فریق شملہ معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم یا معطل نہیں کر سکتا۔ ایسا صرف باہمی رضا مندی، کسی سنگین خلاف ورزی یا غیر معمولی حالات (جیسے جنگ) کی صورت میں ممکن ہے۔
*عملی صورتحال:*
اگرچہ معاہدہ قانونی طور پر قائم ہے، لیکن دونوں ممالک کی جانب سے مختلف اوقات میں اس کی خلاف ورزیاں کی گئیں، جیسے:
– سیاچن پر بھارتی قبضہ (1984)
– کرگل جنگ (1999)
– لائن آف کنٹرول پر بار بار کی جھڑپیں
اس کے باوجود، دونوں ممالک آج بھی اس معاہدے کو رسمی طور پر تسلیم کرتے ہیں۔
*نتیجہ:*
شملہ معاہدہ اب بھی ایک مؤثر سفارتی دستاویز ہے، جسے قانونی طور پر معطل نہیں کیا جا سکتا۔ عملی چیلنجز اپنی جگہ، مگر یہ معاہدہ پاک بھارت تعلقات میں بین الاقوامی اصولوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ کشمیر جیسے معاملات میں بھارت اسے تیسرے فریق کی مداخلت روکنے کے لیے استعمال کرتا ہے جبکہ پاکستان عالمی ثالثی کی حمایت کرتا ہے