لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کی جانب سے مختلف مقدمات کو یکجا کر کے ایک ساتھ ٹرائل کرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ وہ مقدمات جن کے حقائق، وقت، اور مقامات مختلف ہوں، انہیں یکجا نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس طارق سلیم شیخ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے 16 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں آئینی نکات اور کیسز کے پس منظر کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ فیصلے کے مطابق، فواد چوہدری کے خلاف لاہور میں 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد گیارہ مختلف مقدمات درج کیے گئے تھے جن میں ان پر سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اکسانے کا الزام ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں وضاحت کی کہ آئین کا آرٹیکل 13 اے اس وقت لاگو ہوتا ہے جب کسی شخص کو پہلے ہی سزا دی جا چکی ہو یا وہ مجرم قرار پا چکا ہو۔ چونکہ فواد چوہدری کے معاملے میں یہ صورتحال موجود نہیں، اس لیے وہ اس آرٹیکل کے تحت استثنیٰ کے حق دار نہیں ہو سکتے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ تمام مقدمات 9 مئی کے بعد کی صورتحال سے جڑے ہیں، تاہم ان میں ہر ایک کا وقوعہ، وقت، اور کردار مختلف ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ ان مقدمات میں مختلف ملزمان شامل ہیں اور ان میں مختلف نوعیت کی پرتشدد کارروائیاں درج ہیں، لہٰذا انہیں ایک ساتھ ٹرائل کے لیے یکجا نہیں کیا جا سکتا۔