بھارت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تاریخی سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کے اعلان کے بعد خطے میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی دہلی نے اب بنگلہ دیش کے ساتھ ہونے والے گنگا پانی معاہدے کو بھی نظر انداز کرنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت عالمی ضمانتوں کے حامل سندھ طاس جیسے معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کر سکتا ہے، تو وہ 1996 کے گنگا پانی معاہدے کی بھی خلاف ورزی سے گریز نہیں کرے گا۔
سندھ طاس معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے عالمی ضامنوں کی موجودگی میں طے پایا تھا، جس کی بھارت کی حالیہ معطلی کو ماہرین آبی دہشت گردی قرار دے رہے ہیں۔ بنگلہ دیشی ماہرین نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت کا یہ اقدام مستقبل میں گنگا پانی معاہدے کے تسلسل کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، خاص طور پر جب یہ معاہدہ 2026 میں تجدید کے مرحلے میں داخل ہونے والا ہے۔
معروف آبی تجزیہ کار نُتن من موہن کے مطابق، بھارت کا حالیہ رویہ نہ صرف خطے کے استحکام کے لیے خطرہ ہے بلکہ خود نئی دہلی کے لیے بھی خارجہ پالیسی کی ناکامی کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں نئی عبوری حکومت کے چین اور پاکستان سے بڑھتے تعلقات کی موجودگی میں بھارت کا یہ رویہ مزید تناؤ کو جنم دے سکتا ہے۔
گنگا معاہدہ 1996 میں اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا اور وزیر اعظم شیخ حسینہ کے درمیان طے پایا تھا، جس کے تحت خشک موسموں میں بنگلہ دیش کو پانی کی فراہمی کی ضمانت دی گئی تھی۔ تاہم، معاہدے کی تجدید خودکار نہیں بلکہ باہمی رضامندی سے مشروط ہے، جس پر بھارت کے حالیہ اقدامات کے بعد سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
ادھر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بھارت یہ سب اقدامات مقبوضہ کشمیر میں اپنی ناکامیوں، بڑھتی ہوئی مزاحمت اور بین الاقوامی سطح پر سفارتی دباؤ سے توجہ ہٹانے کے لیے کر رہا ہے۔ پاکستان نے بارہا عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ پانی جیسے بنیادی انسانی حق کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے بھارت کو روکا جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نے اپنی آبی پالیسیوں پر نظرثانی نہ کی تو چین، نیپال اور بنگلہ دیش سمیت خطے کے دیگر ممالک بھی اس کے خلاف متحد ہو سکتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک مل کر پانی کے پرامن اور منصفانہ استعمال کے لیے مشترکہ حکمت عملی ترتیب دیں تاکہ خطے کو آبی بحران سے بچایا جا سکے۔