گلگت بلتستان: بلند پہاڑ، حسین وادیاں اور دلکش نظارے… لیکن بعض اوقات یہی فطرت کا حسن خاموشی سے زندگی نگل لیتا ہے۔ پنجاب کے شہر گجرات سے تعلق رکھنے والے چار نوجوان دوستوں کا سفر، جو خوشی، یادوں اور خوابوں سے بھرپور تھا، موت کے اندھے گڑھے میں ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔
گجرات کے سلیمان نصراللہ، واصف شہزاد، عمر احسان اور عثمان 12 مئی کو سفید ہونڈا سیوک نمبر 805-ANE پر شمالی علاقہ جات کی سیر کو روانہ ہوئے تھے۔ دنیور میں قیام کے بعد انہوں نے 15 مئی کی شب گلگت سے سکردو کا سفر شروع کیا۔ تاہم 16 مئی کی صبح کے بعد ان سے کوئی رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔
ریسکیو اداروں اور سیکیورٹی ٹیموں نے کئی روز تک تلاش جاری رکھی، یہاں تک کہ گنجی پڑی کے مقام پر ان کی گاڑی ایک گہری کھائی میں ملی، جہاں سے نیچے جھانکنا بھی مشکل تھا۔ افسوسناک طور پر تمام دوست موقع پر ہی دم توڑ چکے تھے۔
حادثے کی شدت اور گاڑی کے مقام کے باعث ان تک پہنچنے میں تاخیر ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق، گاڑی ایسی خطرناک جگہ پر گری جہاں اس کا سراغ لگانا تقریباً ناممکن تھا۔
حادثے میں جاں بحق ہونے والے تین دوست قریبی رشتہ دار بھی تھے۔ 21 سالہ عمر احسان اسکول ٹیچر کا بیٹا تھا، سلیمان نصراللہ حال ہی میں اٹلی سے چھٹیاں گزارنے آیا تھا، واصف شہزاد دو بیٹیوں کا باپ تھا، اور عثمان ان سب کا دیرینہ دوست تھا۔
بلتستان شاہراہ، جو اپنی خطرناک موڑوں اور کھائیوں کی وجہ سے جانی جاتی ہے، کئی قیمتی جانیں نگل چکی ہے۔ یہی سڑک ان نوجوانوں کے خوابوں کو بھی ہمیشہ کے لیے ختم کر گئی۔
تصاویر اور ابتدائی شواہد کے مطابق، حادثے کی ممکنہ وجہ تھکن بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ ایک تصویر میں نوجوان کو گاڑی کی کھڑکی سے سر ٹکائے نیند میں دکھایا گیا۔