استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور جاری ہے، جس میں دونوں ممالک کے وفود نے خطے میں پائیدار امن اور سرحدی کشیدگی کے خاتمے پر بات چیت کی۔ پاکستان نے اپنے مؤقف کو برقرار رکھتے ہوئے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ افغان سرزمین کا استعمال پاکستان میں دہشت گردی کے لیے ہرگز نہ کیا جائے۔
ذرائع کے مطابق، مذاکرات کے دوران افغان طالبان کی جانب سے مانیٹرنگ میکانزم میں دیگر ممالک کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی، جبکہ پاکستان نے واضح کیا کہ وہ دہشت گردی کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ پاکستانی وفد نے اس بات پر زور دیا کہ قومی سلامتی اور مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق مذاکرات میں 15 گھنٹے طویل سیشن کے بعد دونوں فریقین نے ممکنہ معاہدے کا ایک ابتدائی مسودہ تیار کر لیا ہے۔ افغان وفد نے مطالبہ کیا کہ پاکستان فضائی و زمینی حدود کی خلاف ورزی نہ کرے، جبکہ اپنی سرزمین کسی ایسے گروہ کے لیے استعمال نہ ہونے دے جو افغانستان کے خلاف کارروائی کرے۔
پاکستان نے اپنے جوابی مسودے میں افغان سرزمین سے پاکستان میں دراندازی اور دہشت گرد حملوں کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ دونوں ممالک نے جنگ بندی کے نفاذ اور نگرانی کے لیے ایک چار فریقی مانیٹرنگ چینل کے قیام پر بھی اتفاق کیا ہے جو ممکنہ خلاف ورزیوں کا جائزہ لے گا اور معلومات کے تبادلے کا نظام فراہم کرے گا۔
ترکیہ میں جاری مذاکرات کے حوالے سے پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ قطر کی طرح ترکیہ بھی ایک غیر جانبدار سہولت کار ہے اور کسی ایک فریق کے حق میں نہیں جھکا ہوا۔ دوسری جانب طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ اسلامی امارت مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل پر یقین رکھتی ہے۔
بین الاقوامی مبصرین کے مطابق اگر دونوں ممالک سرحدی کشیدگی کم کرنے پر متفق ہو جاتے ہیں تو یہ پیشرفت خطے میں امن و استحکام کے لیے مثبت قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ مذاکرات کے آئندہ سیشن کے بھی استنبول میں جاری رہنے کا امکان ہے، تاہم ابھی تک کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پایا۔






