ماسکو: روس کے صدارتی دفتر **کریملن** نے امریکی صدر **ڈونلڈ ٹرمپ** کے جوہری ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کے اعلان پر **محتاط ردعمل** دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکا نے جوہری پابندی توڑی تو روس بھی **اسی نوعیت کا اقدام** کرے گا۔
کریملن کے ترجمان **دیمتری پیسکوف** نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ روس نے اب تک کوئی جوہری تجربہ نہیں کیا، تاہم اگر امریکا نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کی تو **ماسکو بھی جواباً قدم اٹھانے پر مجبور ہوگا**۔
انہوں نے وضاحت کی کہ روس کو صدر ٹرمپ کے اس بیان سے قبل واشنگٹن کی جانب سے کسی نئی جوہری حکمتِ عملی یا مؤقف کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔
پیسکوف کے مطابق صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ دیگر ممالک بھی جوہری تجربات کر رہے ہیں، لیکن روس کے پاس **کسی ملک کی ایسی سرگرمیوں کے شواہد موجود نہیں**۔
ترجمان نے مزید کہا کہ روس کے حالیہ **بورویستنک کروز میزائل** اور **پوسائیڈن جوہری ٹارپیڈو** کے تجربات جوہری ہتھیاروں کے تجربات نہیں تھے۔
انہوں نے صدر **ولادیمیر پیوٹن** کے مؤقف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ روس ہمیشہ **جوہری تجربات پر عائد عالمی پابندی** کا احترام کرتا آیا ہے، لیکن اگر کوئی ملک اس معاہدے سے ہٹتا ہے تو روس بھی **اسی کے مطابق ردعمل دینے** کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ **سوویت یونین** نے آخری جوہری تجربہ **1990** میں کیا تھا، جب کہ **امریکا نے 1992** اور **چین نے 1996** میں اپنے آخری تجربات انجام دیے تھے۔ روس نے سوویت دور کے بعد **کبھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ نہیں کیا**۔






