بیجنگ — چین نے رواں سال اپریل میں امریکی مصنوعات پر عائد کیے گئے اضافی 24 فیصد ٹیرف (محصولات) کو ایک سال کے لیے معطل کرنے کا اعلان کیا ہے، تاہم وہ 10 فیصد محصولات برقرار رکھے گا جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ محصولات کے جواب میں لگائے گئے تھے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق، چین کی ریاستی کونسل کے ٹیرف کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ وہ 10 نومبر سے کچھ امریکی زرعی اجناس پر عائد 15 فیصد تک کے محصولات ختم کر دے گا۔
یہ اقدام مارچ 2025 کے اس بیان کی توسیع کے طور پر سامنے آیا ہے جس میں وضاحت کی گئی تھی کہ دنیا کا سب سے بڑا زرعی خریدار کن امریکی درآمدات پر ٹیکس عائد کرے گا۔ تاہم اس نرمی کے باوجود امریکی سویابین پر اب بھی 13 فیصد ٹیرف لاگو رہے گا، جس میں پہلے سے موجود 3 فیصد بنیادی محصول بھی شامل ہے۔
ماہرین کے مطابق، اس فیصلے کے باوجود امریکی سویابین اب بھی برازیل کے مقابلے میں خریداروں کے لیے زیادہ مہنگے ثابت ہو رہے ہیں۔ 2017 میں ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے قبل، سویابین امریکا کی چین کو سب سے بڑی برآمد تھی۔ 2016 میں چین نے 13 ارب 80 کروڑ ڈالر مالیت کے سویابین خریدے تھے، لیکن تجارتی کشیدگی کے بعد چینی درآمدات میں نمایاں کمی آئی۔
کسٹمز کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2024 میں چین نے اپنی سویابین درآمدات کا صرف 20 فیصد امریکا سے خریدا، جو 2016 میں 41 فیصد تھا۔ اس کمی سے امریکی کسانوں کو اربوں ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
گزشتہ ہفتے جنوبی کوریا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کی ملاقات کے بعد سرمایہ کاروں میں کچھ اطمینان دیکھا گیا۔ اس ملاقات سے یہ خدشات کم ہوئے کہ دنیا کی دو بڑی معیشتیں تجارتی مذاکرات ختم کر سکتی ہیں — ایک ایسی کشیدگی جس نے عالمی سپلائی چین کو بری طرح متاثر کیا۔
اگرچہ وائٹ ہاؤس نے ملاقات کے بعد فوری تفصیلات جاری کیں، بیجنگ نے اس بارے میں کوئی تفصیلی بیان نہیں دیا۔ تاہم، چینی سرکاری کمپنی سی او ایف سی او (COFCO) نے اجلاس سے ایک دن قبل امریکا سے تین سویابین کارگو خریدے، جسے تجزیہ کاروں نے خیر سگالی کے اشارے کے طور پر دیکھا۔






