اسلام آباد: سینیٹ سے منظور ہونے والا 27واں آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کر دیا گیا، جس پر اپوزیشن ارکان نے شدید احتجاج کیا اور نعرے بازی کی۔ اجلاس کی صدارت سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کی، جبکہ بل وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا۔
اجلاس کے آغاز پر سینیٹر عرفان صدیقی کے لیے دعاے مغفرت کی گئی، جس کے بعد وزیر قانون نے بل کی تفصیلات بیان کیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین میں ترمیم ہمیشہ مشاورت کے ذریعے کی جاتی ہے، ہم نے پہلے آئینی عدالت کے قیام کے بجائے آئینی بنچز پر اتفاق کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں سوموٹو اختیارات کا بے جا استعمال ہوا، جس سے انتظامیہ اور معیشت متاثر ہوئی۔ نئی ترمیم کے تحت سوموٹو اختیار ختم کر کے ایک باقاعدہ طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 200 میں ترمیم کے بعد ججز کی منتقلی کا اختیار جوڈیشل کمیشن کے پاس ہوگا تاکہ عدالتوں کا وقت ضائع نہ ہو۔
وزیر قانون نے بتایا کہ آئینی عدالت صوبائی اور وفاقی تنازعات سے متعلق مقدمات دیکھے گی، جبکہ سپریم کورٹ سول نوعیت کے 62 ہزار سے زائد مقدمات سنے گی۔ جوڈیشل کمیشن میں سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے ججز کے علاوہ حکومت و اپوزیشن کے نمائندے شامل ہوں گے۔
اپوزیشن لیڈر بیرسٹر گوہر نے ترمیم کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آج جمہوریت کے لیے سوگ کا دن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ترمیم کے ذریعے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے، اور ’’چیف جسٹس آف پاکستان‘‘ کے عہدے کو مؤثر طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ’’یہ عوام کے نہیں بلکہ طاقت کے ایوانوں کے لیے بنائی گئی ترمیم ہے۔‘‘ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’’یہ ترمیم باکو میں تیار ہوئی، اس لیے ہم اسے باکو ترمیم کہتے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق ’’اس ترمیم کے ذریعے اپنے کیسز ختم کرانے اور عدلیہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پارٹی اراکین کو ہدایت کی ہے کہ وہ 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف ووٹ دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ترمیم کے تمام پہلوؤں پر غور کے بعد پارٹی نے اس کی مخالفت کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘






