لندن میں قائم بین الاقوامی نشریاتی ادارے بی بی سی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایڈیٹنگ شدہ بیان نشر کرنے پر باقاعدہ معافی مانگ لی ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ایڈیٹنگ کے باعث یہ غلط تاثر پیدا ہوا کہ صدر ٹرمپ نے براہِ راست کسی پرتشدد کارروائی کی ترغیب دی تھی، جس کے نتیجے میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بی بی سی نے اعلان کیا ہے کہ متعلقہ پروگرام دوبارہ نشر نہیں کیا جائے گا۔
امریکی صدر کے وکلا نے بی بی سی کو ایک ارب ڈالر کے ہرجانے کا نوٹس دینے کی دھمکی دی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ادارہ باضابطہ معافی، اصلاح اور مالی معاوضہ فراہم کرے۔ تنازع کے بعد بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹیم ڈیوی اور ہیڈ آف نیوز ڈیبی ٹرننس نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
بی بی سی نیوز کے مطابق، باضابطہ معافی کے بعد وائٹ ہاؤس سے بھی اس معاملے پر تبصرہ طلب کیا گیا ہے۔ اس وقت بی بی سی پر دباؤ اُس وقت مزید بڑھ گیا جب یہ سامنے آیا کہ 2022ء میں نیوز نائٹ پر بھی اسی نوعیت کا ایک ایڈیٹڈ کلپ نشر ہوا تھا، جس کا انکشاف ڈیلی ٹیلی گراف نے کیا تھا۔
ادارے نے جمعرات کی شام ’’اصلاحات اور وضاحت‘‘ کے سیکشن میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ پینوراما پروگرام میں ایڈیٹنگ کے نتیجے میں ایسا محسوس ہوا جیسے صدر ٹرمپ کی تقریر کا تسلسل دکھایا جا رہا ہے، حالانکہ مختلف حصوں کے اقتباسات شامل تھے۔ یہ ایڈیٹنگ غیرارادی طور پر یہ تاثر دے گئی کہ صدر نے براہِ راست تشدد پر اکسانے کی کوشش کی۔
بی بی سی نے صدر ٹرمپ کے وکلا کے خط کے جواب میں تحریری وضاحت بھی ارسال کی ہے۔ ادارے کے ترجمان کے مطابق بی بی سی کے چیئرمین سمر شاہ نے وائٹ ہاؤس کو ایک ذاتی خط بھی لکھا ہے، جس میں 6 جنوری 2021 کی تقریر کی ایڈیٹنگ پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ تاہم بی بی سی کا کہنا ہے کہ باوجود افسوس کے، اس معاملے میں ہتک عزت کا کوئی دعویٰ نہیں بنتا۔






